23 نومبر 2025 - 00:01
محفوظ اسرائیلی پناہ گاہ کا افسانہ برباد ہو گیا ہے + بہت اہم نکتہ

ان دنوں مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کی نئی لہر نے اسرائیلی معاشرے کو سنگین چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ رجحان، جو کئی دہائیوں سے شجرہ ممنوعہ تھا اور صہیونی منصوبے کو ترک کرنے اور صہیونی مقصد سے غداری کے مترادف اور اس سرزمین میں آنے والے کسی بھی یہودی کے لئے بدنما داغ سمجھا جاتا تھا، اب ویسا نہیں رہا جیسا کہ تھا، اور اجتماعی سطح پر ایک وسیع البنیاد تشویش کا باعث بن گیا ہے۔

ان دنوں مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی آبادکاروں کی الٹی نقل مکانی کی نئی لہر نے اسرائیلی معاشرے کو سنگین چیلنجوں سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ رجحان، جو کئی دہائیوں سے شجرہ ممنوعہ تھا اور صہیونی منصوبے کو ترک کرنے اور صہیونی مقصد سے غداری کے مترادف اور اس سرزمین میں آنے والے کسی بھی یہودی کے لئے بدنما داغ سمجھا جاتا تھا، اب ویسا نہیں رہا جیسا کہ تھا، اور اجتماعی سطح پر ایک وسیع البنیاد تشویش کا باعث بن گیا ہے۔

فروپاشی اسطوره پناهگاه امن اسرائیلی‌ها

بین الاقوامی اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا || سنہ 1948ع‍ میں قابض ریاست کے قیام کے بعد سے، ارض موعود (The Promised Land) کی طرف نقل مکانی (ہجرت) کا خیال صہیونی منصوبے کی شناخت کا ایک ستون رہا ہے۔ تاہم، الٹی نقل مکانی (Reverse migration) کو ہمیشہ انفرادی فرار سمجھا جاتا رہا یا یہ کہ یہ محض کچھ لوگوں کی سماجی ذمہ داری سے دستبرداری ہے۔ یہاں تک کہ سابق وزیر اعظم اسحاق رابین نے 1976 کے نام نہاد یوم آزادی کی تقریبات کے دوران واپس جانے والے آبادکاروں کو "بزدلوں کا زوال" قرار دیا تھا! ایک ایسا لیبل جو اب بھی معاشرے کے اجتماعی نظریئے کی عکاسی کرتا ہے۔

شیب تند «مهاجرت معکوس» صهیونیست‌ها؛ هزینه رویارویی با مقاومت - بررسی های  رسانه ای تحریریه

"محفوظ پناہ گاہ" کا افسانہ برباد

صہیونی ریاست کے قیام کے بعد سے، امن و سلامتی اور سکون و اطمینان اسرائیلیوں کے اجتماعی تشخص کا مرکزہ (نیوکلئس Nucleus ) تھا۔ اسرائیل کو ہمیشہ "یہودیوں کی آخری پناہ گاہ" (The final refuge of the Jews) اور یورپ سے آنے والے پناہ گزینوں کی "محفوظ پناہ گاہ" کے طور پر متعارف کرایا جاتا تھا۔ لیکن یہ افسانہ 7 اکتوبر 2023 کو آپریشن طوفان الاقصیٰ کے دوران ٹوٹ گیا۔ فلسطینی مقاومت کا کا قلعہ بند سرحدوں میں گھس جانا اور اسرائیلی سلامتی کی تمام علامتوں کی یکے بعد دیگرے تباہی سے یہ ظاہر ہؤا کہ جس چیز کو برسوں سے "پناہ گاہ" اور "حفاظتی قلعے" کے طور پر فروغ دیا جا رہا تھا وہ درحقیقت ایک اجتماعی وہم و فریب سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

شیب تند «مهاجرت معکوس» صهیونیست‌ها؛ هزینه رویارویی با مقاومت

'"اسرائیل" ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ (2024)' کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس آپریشن کے بعد دو تہائی سے زیادہ آبادکاروں کا فوج پر سے اعتماد اٹھ ہو گیا، اور ان میں سے نصف سے زیادہ نے مرکزی شہروں میں بھی ذاتی تحفظ کے فقدان کا مستقل خوف اور فکرمندی کا اظہار کیا۔ حالات کی ان تبدیلیوں نے "محفوظ پناہ گاہ" کے تصور پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے جس نے تارکین وطن کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور ہزاروں آبادکار خاندان بیرون ملک "متبادل پناہ" کی تلاش میں نکل گئے۔

فرار غاصبان

نقل مکانی کی سونامی

"اسرائیل" کو اپنے قیام کے بعد پہلی بار الٹی نقل مکانی کی ایک مسلسل اور بڑی لہر کا سامنا ہے۔ اس طرح کہ پچھلے دو سالوں کے دوران مقبوضہ فلسطین سے نکل کر جانے والے آبادکاروں کی تعداد، واپس آنے والے آبادکاروں کی تعداد سے تجاوز کر گئی ہے۔ کنیسٹ (صہیونی پارلیمان) کے ریسرچ اینڈ انفارمیشن سینٹر کے سرکاری اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ 2023 اور 2024 کے دوران، "اسرائیل" ایک ایسا نظام بن گیا جو زیادہ تر، لوگوں کر برآمد کرتا ہے، اور کم ہی، درآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

بولتن‌نیوز - رژیم صهیونیستی و افزایش پدیده مهاجرت معکوس؛ دلایل و پیامدها -  صاحب‌خبر

سنہ 2023ع‍ میں باہر نکلنے کی شرح 82 سے 85 ہزار کے درمیان تھی جو کہ دوسری انتفاضہ تحریک کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔ سنہ 2024ع‍ کے پہلے مہینوں کے اعدادوشمار سے معلوم ہؤا کہ باہر نکلنے والے آبادکاروں کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں 59% اضافہ ہؤا اور واپسی کی شرح 21% سے بھی کم رہی ہے۔ یہ اعداد و شمار 'الٹی نقل مکانی اور واپسی کے درمیان آبادیاتی توازن' میں 'بنیادی تبدیلی' کی نشاندہی کرتے ہیں۔

اس نقل مکانی کے دو اہم مراحل ہیں: پہلا مرحلہ (اکتوبر سنہ 2023ع‍ سے مارچ سنہ 2024ع‍) اجتماعی جھٹکے کے نام سے اور ایک حفاظتی اور عارضی مقصد کے ساتھ، اور دوسرا مرحلہ (اپریل سنہ 2024ع‍ سے موسم گرما سنہ 2025ع‍) جس میں، مقبوضہ فلسطین سے باہر نکلنا، 'زیادہ مستحکم زندگی'، 'ملازمت کے مواقع' اور 'تعلیم' کے لئے ایک 'اسٹراٹیجک آپشن' بن گیا ہے: یعنی مستقل نقل مکانی واپس نہ آنے کے منصوبے کے ساتھ۔

مظلوم‌نمایی یهودیت در تاریخ | مرکز ملی پاسخگویی به سوالات دینی

کون جا رہا ہے؟

الٹی نقل مکانی کرنے والے زیادہ تر آبادکار 25 سے 40 سال کی عمر کے نوجوان ہیں، وہی طبقہ جو مینوفیکچرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں افرادی قوت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لہر میں سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر اور پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں، جو ایک قسم کی 'برین ڈرین' کو تشکیل دیتی ہے۔ ScienceAbroad نیٹ ورک نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے 3,500 سے زیادہ اسرائیلی محققین اور سائنس دان یورپ اور شمالی امریکہ کی یونیورسٹیوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں، جو پچھلے سالوں کے مقابلے میں دو گنا بڑی تعداد ہے۔

یہ صورت حال "اسرائیلی" معاشرے کو ایک واضح پیغام بھیجتی ہے: "مقبوضہ علاقوں میں نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کو مزید روشن مستقبل نظر نہیں آ رہا ہے، اور وہ اب بیرون ملک اپنی زندگیوں کی سلامتی اور استحکام کی تلاش میں ہیں۔ نقل مکانی اب محض تلاش معاش یا تلاش روزگار نہیں رہی؛ یہ تشخص اور سلامتی کے بحران کا جواب لانے کی کوشش ہے۔

آخرین اخبار - سرزمین موعود

طویل مدتی نتائج

یہ صورت حال جاری رہے تو یہ نہ صرف آبادی اور پیداوار میں کمی کا باعث بنے گی بلکہ اسرائیل کی آبادیاتی اور اقتصادی ساخت کو بھی دگرگوں کر دے گی۔ افرادی قوت، تکنیکی اور تحقیقی ماہرین کا ایک بڑا حصہ کھو جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو جاتا ہے جسے درمیانی اور طویل مدت میں پُر کرنا مشکل ہو گا؛ علاوہ ازیں، صہیونی آبادکار معاشرے اس وقت دو قسم کے لوگوں میں منقسم ہؤا ہے: وہ لوگ جو مقبوضہ علاقوں میں قیام کو ایک "قومی فریضہ" سمجھتے ہیں اور وہ لوگ جو مقبوضہ علاقہ چھوڑنے اور یہاں سے نقل مکانی کرکے دوسرے ممالک میں جانے کو انسانیت نجات کا ایک راستہ سمجھتے ہیں؛ اور موجود صورت حال اس تقسیم کو بھی گہرا کر دیتی ہے۔

آخر کار صہیونی ماڈل ـ جو کہ "محفوظ پناہ گاہ" کے تصور پر تعمیر ہؤا تھا، ـ اب ایک بنیادی مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ "صُعُود" جیسا تصور، جو کبھی ایک مشترکہ خواہش اور "ارضِ موعود" کی طرف حرکت کی علامت تھا، اب ایک زندہ معنی سے عاری ہو چکا ہے او آثار قدیمہ کے زمرے میں چلا گیا ہے۔

بہت اہم نکتہ:

صہیونیوں کو عجیب و غریب اندرونی مسائل درپیش ہیں لیکن انھوں نے اپنے ارض موعود کے باطل سپنے پر اب بھی اصرار کرتے ہیں اور حال ہی میں صہیونی حکام نے "عظیم تر اسرائیل" کے قیام کو ایجنڈے پر لانے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی اطلاعات ہیں کہ مسلمان حکومتوں کے برعکس جو یہودی ریاست کی بقاء پر یقین رکھتے ہیں اور اپنی بقاء کے لئے اس کے ایجنٹ بنے ہوئے ہیں، یہودیوں کو خود بھی یقین ہے کہ اسرائیل کا خاتمہ قریب ہے یہاں تک کہ وہ 'اسرائیلی وجود' کی بنیادی دستاویزات اکٹھی کرکے ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک حصے میں محفوظ کر رہے ہیں تاکہ یہودیوں کی اگلی نسلیں اپنی شناخت بحال کر سکیں!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha